حرفِ آغاز
حضرت مولانا
مرغوب الرحمن صاحب(مہتمم دارالعلوم دیوبند) كا سانحہٴ ارتحال
مولانا حبیب
الرحمن اعظمی
تری صورت سے کسی کی
نہیں ملتی صورت
ہم جہاں میں تری
تصویر لئے پھرتے ہیں
ابھی
دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوریٰ کے رکن رکین،
کارگزار مہتمم، پاک نفس، نیک نیت عالم دین مولانا غلام رسول
خاموش رحمہ اللہ کی مفارقت کا غم تازہ ہی تھا کہ فہم وفراست اور زندگی
کے وسیع تجربات کے حامل، توازن واعتدال کی میزان، مکارم اخلاق
اور انسانی شرافت کے پیکر، امیری میں فقیری
اداؤں کے علم بردار، دارالعلوم دیوبند کی مسند اہتمام کے صدرنشیں
حضرت مولانا مرغوب الرحمن قدس سرہ بھی نہ جانے کتنوں کو سوگوار اور دلفگار
چھوڑ کر اپنی آخری منزل اور آرام گاہ کو رحلت کرگئے۔ اللّٰھم اغفرلہ وارحمہ واجعل قبرہ روضة من ریاض الجنة۔ آمین
زندگی کا
چراغ گل ہوتے ہوتے کچھ دیر نہیں لگتی، اور اب تو ان کی
عمر صدسال کو پہنچ گئی تھی، اور عرصہ سے چراغ سحری ہورہے تھے
اور ہر وقت واقعہ کا دھڑکا لگا رہتا تھا جو بالآخر یکم محرم الحرام ۱۴۳۲ھ یوم چہار شنبہ کو واقع ہوگیا، انا للہ وانا الیہ راجعون۔
موت! زندوں اور
مردوں کے درمیان ایسی دیوار کھڑی کردیتی
ہے جس سے ان کے مابین زندگی میں پائے جانے والے سارے روابط ٹوٹ
جاتے ہیں، اس لئے اس دنیا میں جن شخصیتوں سے کسی بھی
نوع کا رشتہ ورابطہ ہوتا ہے ان کے یہاں سے رخصت ہوجانے پر غم واندوہ اور
اضطراب وقلق ایک طبعی وفطری امر ہے، جس کا اظہار آنسوؤں اور
جانے والے کے محاسن وکمالات کی یادوں اور تذکروں سے ہوتا ہے، اس وقت
اسی غم والم کے وہ آنسو ہیں جو قلم کی راہ سے صفحہٴ قرطاس
پر ثبت ہوگئے ہیں ورنہ ان اوراق میں وہ وسعت کہاں ہے جو حضرت مہتمم
صاحب نوراللہ مرقدہ کے اوصاف وکمالات اور فضائل ومحامد کو اپنے اندر سمیٹ
سکے۔
دامن نگہ
تنگ گلِ حسن تو بسیار
گل چینِ
بہار تو ز داماں گلہ دارد
جن حوصلہ شکن، صبر
آزما اوراضطراب انگیز حالات میں دارالعلوم دیوبند کے اہتمام اور
انتظام وانصرام کی ذمہ داریاں ان کے کاندھوں پر رکھی گئیں،
جنھوں نے اس وقت کی برپا رستاخیزیوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا
نہیں ہے، ان کے لئے اس کا مکمل ادراک دارالعلوم کی آج کی عافیت
بدوش اور تابناک فضاؤں میں مشکل ہے۔
ایک طرف تقریباً
دو ڈھائی سو کا عملہ، اور ایک ہزار سے اوپر عزیزطلبہ کی
جماعت، دوسری طرف دارالعلوم کا نقدی سرمایہ بینکوں میں
منجمد، نیز دارالعلوم کے ایک عرصہ سے مقفل رہنے اور اس کی تعلیمی
وتربیتی سرگرمیوں کے معطل ہوجانے کی وجہ سے اہل خیر
کی مالی اعانت ونصرت بھی صفر کے درجہ میں پہنچی ہوئی
تھی، اس تہی دامنی کے عالم میں کارکنان کے ضروری
لوازمات کی ادائیگی تو دور کی بات ہے روز مرہ کے ضروری
مصارف کا پورا ہونا بھی مشکل ہورہا تھا، شاید یہ بات کم ہی
لوگوں کے علم میں ہو کہ اس زمانہ میں ایک دن ایسا بھی
آیا کہ مطبخ میں خرچ کے لئے بھی کچھ نہیں تھا اور مجبوراً
تیس ہزار روپئے قرض لے کر طلبہ وغیرہ کے کھانے کا بندوبست کرنا پڑا
تھا، حالات کی سنگینی کا یہ صرف ایک پہلو ہے، جس سے
بآسانی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ دین متین کا یہ
قلعہ اور علم وعرفان کی یہ کشتی کس طرح ہر چہار سمت سے طوفانوں
کے نرغہ میں تھی۔
پھر دنیا نے
کھلی آنکھوں مشاہدہ کیا کہ بادئہ مہرو وفا سے سرشار اس مرد درویش
نے نہ صرف اس موجِ بلاخیز سے دارالعلوم کے سفینہ کو نکال کر بحفاظت
تمام ساحل مراد پر لگادیا، بلکہ بتوفیق ایزدی اپنی
دلسوزی،اولوالعزمی، حکمت تدبیر اور شبانہ روز کی انتھک
وبے لوث جدوجہد سے اسے حیات تازہ اور نئی جولانیوں سے ہم کنار
کردیا۔
شورش عندلیب
نے روح چمن میں پھونک دی
ورنہ یہاں
کلی کلی محوِ خوابِ ناز تھی
آج دارالعلوم دیوبند
کے درودیوار بزبان حال شہادت دے رہے ہیں کہ اس بندہٴ سراپا
اخلاص کے دور اہتمام میں اکابر رحمہم اللہ کی اس یادگار نے جس
برق رفتاری سے ارتقاء کی منزلیں طے کیں وہ دارالعلوم کی
طویل تاریخ میں اپنی مثال آپ ہے۔
تلک آثارنا تدل
علینا
فانظروا بعدنا
الی الآثار
رب کریم علم
وعلما کی اس پناہ گاہ اور اس کے فرزندوں کی جانب سے حضرت مہتمم صاحب
قدس سرہ کو بہتر سے بہتر بھرپور جزا عطا فرمائے، جنھوں نے اس کی خاطر اپنے
رئیسانہ آرام وراحت کو خیرباد کہہ کر فقیرانہ زندگی اختیار
کرلی تھی۔
مختصر سوانحی
خاکہ
آپ شہر بجنور محلہ
قاضی پاڑہ کے ایک دینی وعلمی، ذی وجاہت، زمیندار
گھرانے کے چشم وچراغ تھے اور بڑی فارغ البالی بلکہ تنعم اور امارت وریاست
کے ماحول میں آنکھیں کھولی تھیں اور زندگی کا بیشتر
حصہ اسی حال میں گزرا تھا۔ آپ کے غالباً رشتہ کے نانا حضرت
مولانا حکیم رحیم اللہ بجنوری رحمة اللہ علیہ متوفی
۱۳۴۷ھ/۱۹۲۹ء دارالعلوم
کے عہد آغاز کے فارغین اور حضرت حجة الاسلام مولانا نانوتوی رحمة اللہ
علیہ کے آخری دور کے ارشد تلامذہ میں سے تھے، بموقع حج بیت
اللہ ، سید الطائفہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمة اللہ علیہ
سے بیعت کا شرف بھی حاصل کیا تھا، فن طبابت کے ساتھ علم کلام
اور مناظرہ میں کامل دستگاہ رکھتے تھے اور بہت سی کتابوں کے مصنف تھے،
بڑے باوضع اور اوراد ووظائف کے نہایت پابند تھے۔
اور آپ کے والد
ماجد حضرت مولانا حکیم مشیت اللہ بجنوری رحمة اللہ علیہ
متوفی ۱۳۷۲ھ/۱۹۵۲ء فاضل
دارالعلوم دیوبند حضرت شیخ الہند رحمة اللہ علیہ کے تلمیذ
رشید اور حضرت محدث عصر علامہ انور شاہ کشمیری رحمة اللہ علیہ
کے رفیق درس اور یارغار تھے اسی تعلق سے سال میں ایک
دو بار حضرت حکیم صاحب کے یہاں ضرور تشریف لاتے تھے، حکیم
صاحب مرحوم ۱۳۴۴ھ میں دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوریٰ
کے رکن منتخب ہوئے اور تاحیات اس اعزاز سے متصف رہے۔ نیز آپ کے
بڑے بھائی مولانا حکیم مطلوب الرحمن بجنوری متوفی ۱۴۰۸ھ/۱۹۸۸ء بھی
دارالعلوم دیوبند سے فارغ التحصیل تھے یہ حضرت شیخ
الاسلام مولانا مدنی رحمة اللہ علیہ کے ابتدائی زمانہٴ
صدارت کے تلامذہ میں تھے اور حضرت شیخ سے والہانہ تعلق رکھتے تھے۔
دارالعلوم دیوبند
کے عہد آغاز ہی سے دارالعلوم اور اس کے اکابر سے وابستہ اسی متمول
خاندان میں ۱۳۳۳ھ/۱۹۱۴ء میں
آپ کی ولادت ہوئی سن شعور کو پہنچے تو مدرسہ رحیمیہ مدینة
العلوم جامع مسجد بجنور میں داخل کردئیے گئے یہ مدرسہ حضرت
مولانا حکیم رحیم اللہ صاحب کی وصیت کے مطابق انھیں
کے پس ماندہ سرمایہ سے جاری کیاگیا تھا اور آپ کے والد
مولانا مشیت اللہ کی زیرسرپرستی تعلیمی خدمات
انجام دے رہا تھا۔
جب شرح جامی،
شرح وقایہ وغیرہ تک نصاب کی کتابیں یہاں مکمل ہوگئیں
تو والد محترم نے ۱۳۴۸ھ/۱۹۲۹ء میں
آگے کی تعلیم کے لئے دارالعلوم میں داخلہ کرادیا اور تین
سال میں نصاب کی تکمیل کرکے ۱۳۵۱ھ/۱۹۳۲ء میں
حضرت شیخ الاسلام مولانا مدنی رحمة اللہ علیہ سے صحیح
بخاری، اور جامع ترمذی اور دیگر اساتذہ سے بقیہ کتب حدیث
پڑھ کر فارغ التحصیل ہوگئے، آگے شعبہ افتاء میں داخل کا ارادہ تھا مگر
شعبان کی تعطیل میں گھر آئے تو بیمار ہوگئے جس کا سلسلہ
مہینوں جاری رہا، اس لئے یہ سال اسی کی نذر ہوگیا،
صحت یاب ہوجانے کے بعد پھر دارالعلوم حاضر ہوئے شعبہ افتاء میں داخل
ہوکر صدر شعبہ حضرت مولانا محمد سہول بھاگلپوری اور مفتی محمد شفیع
دیوبندی مفتی اعظم پاکستان وغیرہ سے فتویٰ نویسی
کی مشق کی اور اس سے متعلق کتابیں پڑھیں اور فتویٰ
نویسی کے ایک سالہ نصاب کی تکمیل کرکے ۱۳۵۳ھ/۱۹۳۴ء میں
گھر آگئے اور دارالعلوم دیوبند کے وہ اساتذہ جن کے سامنے آپ نے زانوے تلمذ
تہہ کیا ان کا تذکرہ کثرت سے کیا کرتے، ان اکابر میں سے جن کا
نام ذہن میں محفوظ رہ گیا ہے وہ یہ ہیں: حضرت شیخ
الاسلام مولانا مدنی، حضرت شیخ الادب مولانااعزاز علی امروہوی،
حضرت مولانا عبدالسمیع دیوبندی، حضرت علامہ محمد ابراہیم
بلیاوی، حضرت مولانا اصغرحسین دیوبندی، حضرت مولانا
نبیہ حسن دیوبندی، مولانا رسول خاں ہزاروی، حضرت مولانا
مفتی محمد سہول بھاگلپوری، حضرت مولانا مفتی محمد شفیع دیوبندی
رحمہم اللہ تعالیٰ، آخر الذکر دونوں بزرگوں سے مشق فتویٰ
اور اس سے متعلق کتابوں کا درس لیاتھا۔
تعلیم سے
فراغت کے بعد والد محترم کے ایماء پر اپنی ابتدائی تعلیم
گاہ مدرسہ رحیمیہ مدینة العلوم میں تدریسی
سلسلہ شروع کردیا، لیکن یہ زریں سلسلہ تادیر قائم
نہ رہ سکا، جائیداد کے انتظام وانصرام،اور قومی وملی خدمات نے
آپ کو اس قدر مصروف ومشغول بنادیا کہ تدریس کے لئے وقت نہ نکال سکے اس
لئے درس وافادہ کے مشغلہ کو مجبوراً ترک کرنا پڑا۔
۱۳۸۲ھ/۱۹۶۲ء میں مجلس شوریٰ دارالعلوم دیوبند
کے رکن منتخب ہوئے،اسی سن میں درج ذیل علما ومشاہیر کی
رکنیت مجلس شوریٰ کا انتخاب میں عمل میں آیا۔
مفکر اسلام مولانا ابوالحسن علی ندوی، مولانا عبدالقادر مالیگانوی،
مولانا قاضی زین العابدین سجاد میرٹھی، مولانا سعید
احمد اکبر آبادی، مولانا حامد الانصاری غازی، مولانا فضل اللہ
شارح ادب المفرد حیدرآبادی،مولانا سیدحمید الدین فیض
آبادی شیخ الحدیث مدرسہ عالیہ کلکتہ،رحمہم اللہ تعالیٰ۔
مجلس شوریٰ
میں آپ کی رائے اور مشورے اہمیت کی نظر سے دیکھے
جاتے تھے، مجلس شوریٰ جب بوقت ضرورت دارالعلوم کے کسی معاملہ میں
تحقیق و تفتیش کی غرض سے ذیلی مجلس تشکیل کرتی
تو اس میں بطور خاص آپ کو شامل کرتی تھی جس سے پتہ چلتا ہے کہ
آپ کے فکر وعمل کے اعتدال واصابت پر مجلس کو پورا اعتماد تھا۔
بحیثیت
مہتمم دارالعلوم میں آمد
دارالعلوم دیوبند
کے سابق مہتمم حضرت حکیم الاسلام مولانا قاری محمدطیب صاحب
نوراللہ مرقدہ نے مجلس شوریٰ منعقدہ ۲۵/رجب ۱۴۰۱ھ میں تقریباً دو صفحے کی ایک
تحریر پیش فرمائی اس میں انھوں نے اپنے بارے میں
تحریر فرمایا تھا کہ’’میں کافی ضعیف ہوچکا ہوں،
بتقاضائے عمر قویٰ اوراعصاب جواب دیتے جارہے ہیں، خصوصاً
قوتِ سماعت اور قوت حافظہ زیادہ متاثر ہوئی ہے، جس سے بحث وغیرہ
کے وقت مسائل کان میں مشکل سے پڑتے ہیں اور جزئیات مستحضر بھی
نہیں رہتیں۔‘‘...
آگے تحریر
فرمایاتھا:
ان حالات اور
وجوہات کی بناء پر میری درخواست ہے کہ داخلی نظم کی
مسئولیت کا تعلق مجھ سے نہ رکھا جائے اور جوابدہی سے مجھے ہلکا کردیاجائے...
حضرت حکیم
الاسلام قدس سرہ کی اس تحریر کے پیش نظر، حضرت مولانا مرغوب
الرحمن رحمہ اللہ کو’’ مددگار مہتمم‘‘ کے لئے منتخب کیا، جس کی اطلاع
حضرت حکیم الاسلام قدسہ سرہ نے انھیں اپنے ایک مکتوب میں
بایں الفاظ دی۔
حضرت المحترم
المکرم مولانا مرغوب الرحمن صاحب زیدمجدکم،
سلام مسنون ! نیاز
مقرون، مجلس شوریٰ منعقدہ ۲۵/رجب ۱۴۰۱ھ مطابق ۳۰/مئی ۱۹۸۱ء نے جناب کو مددگار مہتمم کے عہدہ پر فائز کیاہے۔
جو ہم سب کے لئے موجب مسرت ہے،امید کہ جناب محترم منظوری کی
اطلاع دے کر جو وقت مناسب سمجھیں دفتر اہتمام میں تشریف لاکر اس
ذمہ داری کو سنبھالیں اور کام شروع فرمادیں۔
اس وقت کے
دارالعلوم دیوبند کے ترجمان ماہنامہ دارالعلوم کے اگست کے شمارہ میں
پورا ۴/صفحے کا اداریہ اس شوریٰ کے اجلاس کی کارروائی
پر لکھا گیاتھا،جس میں اداریہ نویس لکھتے ہیں:
’’مددگار مہتمم کے عہدے پر مجلس شوریٰ کے
قدیم رکن حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب بجنوری فائزکئے گئے جن کا
خاندان عزت وشرافت اور ریاست میں عرصہ سے بجنور میں مشہور ہے
اور جو خاندان قاسم العلوم والخیرات حضرت نانوتوی رحمة اللہ علیہ
سے بھی وابستہ رہا ہے الخ‘‘
پھر مجلس شوریٰ
منعقدہ ۲۴/شوال ۱۴۰۲ھ مطابق ۱۵/اگست ۱۹۸۲ء کے موقع پر
حضرت حکیم الاسلام قدس سرہ کا کار اہتمام سے استعفاء آگیاتو مجلس نے
آپ کو مستقل مہتمم مقرر کردیا۔
اس انتخاب پر گرچہ
بعض حلقوں سے حیرت واستعجاب کا اظہار ہوا، لیکن جنھیں دارالعلوم
دیوبند سے ان کے پشتینی رشتے اور دارالعلوم کے تعلق سے ان کی
ابت تک کے پس منظر سے واقفیت تھی، مجلس کے اس فیصلہ کو انھوں نے
بنظر استحسان دیکھا، اور بعد کے حالات و واقعات نے بھی دنیا
پرآشکارا کردیا کہ یہ فیصلہ بالکل برمحل اور زبان زد مقولہ ’’حق
بحق دار رسید‘‘ کی سچی تعبیر تھا۔
دارالعلوم کی
آغوشِ تربیت میں پروان چڑھے اس کے سپوت کو جب اپنی مادر علمی
کی خدمت کا موقع میسر ہوا تو چشم فلک نے دیکھا کہ اس نے اپنی
حیات کی ساری پونجی اس کے قدموں پر نچھاور کردی،
اور نہ صرف یہ کہ دارالعلوم کے لئے اس نے اپنے رئیسانہ آرام و راحت کو
خیرباد کہہ کر دارالعلوم کی زاہدانہ اور فقیرانہ زندگی
کرلی بلکہ اپنے جذبات وخواہشات تک کو اس کے تابع کردیا، بس بالفاظ
مختصر یوں سمجھئے کہ دارالعلوم کے استحکام و ارتقاء کا بیقرارانہ جذبہ
ان کی روح کی غذا، اور درد کی دوا بن گیا تھا۔
جس وقت وہ
دارالعلوم میں بحیثیت مہتمم آئے اس وقت عمر ستر کے لگ بھگ، لیکن
اعصاب وقویٰ نہایت مضبوط تھے، اور پورے طور پر صحت مند،چاک
وچوبند اور تواناں تھے، بالوں کی سفیدی کے علاوہ بڑھاپے کے آثار
چہرے بشرے کہیں سے بھی ظاہر نہیں ہورہے تھے ان کی یہ
ساری توانائی دارالعلوم کی بے لوث خدمت میں کام آگئی۔
معمول یہ
تھا کہ نماز فجر مسجد میں باجماعت ادا کرکے سیدھے حجرے میں
آجاتے اور قرآن پاک کی تلاوت میں مشغول ہوجاتے اس سے فارغ ہوکر اشراق
پڑھتے پھر دیر تک رب کائنات کے آگے ہاتھوں کو پھیلاے عجز و نیاز
اور گریہ وزاری میں لگے رہتے، اتنے میں ناشتہ آجاتا،اس سے
فاغ ہوکر اگر اس وقت تک اخبار آگیا ہوتا تو اس پر سرسری نظر دوڑالیتے
البتہ اگر کوئی اہم خبر ہوتی تو اسے بغور پڑھتے پھر گھنٹہ بجتے ہی
دفتر اہتمام میں پہنچ جاتے،اور بارہ بجے تک پورے انہماک سے دفاتر کے کاغذات
کو دیکھتے رہتے، بالخصوص مطبخ اور محاسبی کے جملہ کاغذات روزانہ بالاستیعاب
ملاحظہ کرتے تھے،اگر کسی کاغذ کے مشمولات سے متعلق کوئی اشکال ہوتا تو
متعلقہ فرد کو طلب کرکے اس کی وضاحت معلوم کرتے، غلطی پر اپنے انداز میں
تنبیہ بھی فرماتے، ہفتہ عشرہ میں بذات خود دفتروں میں
پہنچ کر کام کرنے والوں اور ان کے کام کی نوعیت کو دیکھتے، اس کی
بناء پر سارے کارکن اپنی اپنی نشست پر موجود رہتے کہ نہ جانے کب حضرت
مہتمم صاحب آجائیں بطور خاص مطبخ کا معائنہ کثرت سے کرتے تھے کبھی کبھی
روٹیوں کو اپنے سامنے وزن کراتے، مصالحہ جات دیکھتے، مقررہ مقدار کے
مطابق ساری چیزیں استعمال ہورہی ہیں یا نہیں،
بڑی باریک بینی سے ان امور کو دیکھتے اور ضروری
ہدایات دیتے۔
گوشت پر بھی
پوری نظر رکھتے، جسے بھی اس کا ٹھیکہ دیتے اسے پابند کرتے
کہ جانور دارالعلوم ہی کے احاطہ میں دارالعلوم کی جانب سے مقرر
نگراں کے سامنے ہی ذبح ہوگا، اور نگراں کو یہ ہدایت تھی
کہ لاغر اور بوڑھا جانور کبھی بھی ذبح نہ ہو۔
اسی طرح تعمیرات
کا بھی معائنہ کرتے رہتے تھے اور موقع بموقع مناسب ہدایات بھی دیتے
تھے، غرضیکہ ہر چھوٹی بڑی چیز پر نظر رکھتے۔
غرضیکہ خود
فعال ومتحرک تھے اور دارالعلوم کے پورے عملے کو فعال ومتحرک بنادیا تھا،
اپنے تیس سالہ دور اہتمام میں جب تک طاقت وقوت نے ساتھ دیا یہی
ہمیشہ کا معمول رہا کہ خود کو بھی مصروفِ کار رکھتے اور دیگر
کارکنوں کو بھی کام میں لگائے رکھتے تھے۔
اس پر مستزاد یہ
کہ سب کو ساتھ لے کر چلنے کے جذبہ سے اپنے ہم عصروں ہی سے نہیں بلکہ
اپنے چھوٹوں کو رائے اور مشورے میں شریک رکھتے تھے، جس سے دارالعلوم
کے ماحول میں یکجہتی اور ہم آہنگی پیدا ہوگئی
تھی، اور اپنے ہی نہیں پرائے بھی اعتراف کرتے تھے کہ حضرت
مہتمم صاحب کی حکمت وفراست اور مستعدی وجواں ہمتی نے دارالعلوم
کے سارے کارکنوں میں دارالعلوم کی خدمت کا نیا ولولہ اور جوش پیدا
کردیا ہے، جدھر دیکھئے ایک حوصلہ بخش سرگرمی ہے،اور
دارالعلوم کو اوجِ ثریا پر پہنچادینے کا بے پناہ جذبہ ہے، یہ
واقعہ ہے کہ انھوں نے بڑی خاموشی کے ساتھ دارالعلوم میں ایک
ہمہ جہت صالح انقلاب برپا کردیا تھا، اور بغیر کسی تشہیر
ونمائش کے تیس سال کی مختصر مدت میں دارالعلوم دیوبند کی
تاریخ میں ایسے ایسے کارنامے رقم کرگئے جنہیں انجام
دینے کے لئے صدیاں درکار ہوتی ہیں۔
ایں
کار از تو آید مرداں چنیں کنند
عادات واوصاف
حضرت مہتمم صاحب
فہم وفراست، حکمت ودانائی اور زندگی کے وسیع تجربوں کے ساتھ،
مکارم اخلاق اور انسانی شرافت کے نمونہ تھے، ان کی بے نفسی، سبک
روی، صلہ رحمی، ایثار اور توازن واعتدال نے انھیں ہر دلعزیز
بنارکھا تھا، اور ہر شخص انھیں عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھتاتھا۔
مہمان نوازی اور واردین وصادرین کی خاطر ومدارات تو ایسی
کرتے تھے جس کی مثال مشکل سے ملے گی، اس مد میں سالانہ اچھی
خاصی رقم خرچ ہوجاتی تھی، لیکن انھیں اس میں
ایسی لذت ملتی تھی کہ روپئے پیسے اس کے سامنے کوئی
حقیقت نہیں رکھتے تھے۔
اس عاجز کو ان کے
دسترخوان کی زلہ ربائی کا موقع کثرت سے حاصل ہوا، اور اپنا یقین
تو یہ ہے کہ پہلے دن جس انبساط اور فراخ دلی کا معاملہ فرمایا
تھا آخرتک اس میں کسی کمی کا احساس نہیں ہوا؛ بلکہ صحیح
معنوں میں اضافہ ہی ہوا۔
ایک عرصہ کی
بات ہے کہ جناب سید حامد صاحب سابق وائس چانسلر علی گڑھ یونیورسٹی
علی گڈھ کا پیغام آیا کہ وہ ایک وفد کے ساتھ دارالعلوم
آرہے ہیں یہ وفد ایک خاص مشن کے تحت ملک کے اہم شہروں اور تعلیمی
اداروں کے دورہ پر نکلا تھا، جس سے دارالعلوم کو اتفاق نہیں تھا یہ
بات محترم سید حامد صاحب اور ان کے رفقاء کو بھی معلوم تھی پھر
بھی ان کی مصلحت اسی کی متقاضی تھی کہ وہ
دارالعلوم آئیں، چنانچہ حسب پروگرام یہ وفد آیا، نقطئہ نظر کے
اختلاف کے باوجود حضرت مہتمم صاحب نے وفد کا خیرمقدم کیا، اور ان کی
خاطر ومدارات اور ان کے ساتھ اعزاز واکرام کا معاملہ اس وسیع القلبی
سے کیا کہ وفد کے ارکان اس سے بیحد متاثر ہوئے، حتی کہ اس وفد
کے ایک رکن جناب مولانا مجیب اللہ ندوی مرحوم نے اپنے ادارہ کے
ماہنامہ مجلہ ’’الرشاد‘‘ میں حضرت مہتمم صاحب کے کریمانہ اخلاص سے
متعلق اداریہ سپرد قلم کیا جس میں یہ بھی تحریر
کیا تھا کہ دیوبند کے اکابر کی تواضع اور بے نفسی کے جو
واقعات کتابوں میں پڑھے تھے دیوبند کے اس سفر میں مولانا مرغوب
الرحمن مہتمم دارالعلوم کی شکل میں اس کی زندہ تصویر دیکھ
کر آیا ہوں اور جی چاہتا ہے کہ یہ تصویر پھر دیکھنے
کو ملے۔
حضرت فاروق اعظم
رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ کسی شخص کے بارے میں یہ
معلوم کیا کہ انھیں کوئی پہچانتا ہے، مجلس میں ایک
صاحب کھڑے ہوئے کہ میں انھیں پہچانتا ہوں، حضرت فاروق اعظم رضی
اللہ عنہ نے اس سے دریافت فرمایا تم ان کے پڑوسی ہو؟ انھوں نے
کہا نہیں، فرمایا کیاتم نے کبھی ان سے کوئی معاملہ
کیا ہے؟ انھوں نے نفی میں جواب دیا، حضرت فاروق اعظم نے تیسرا
سوال فرمایاکہ کیا تم نے کبھی ان کے ساتھ سفر کیا ہے؟ ان
صاحب نے اس کا جواب بھی نفی میں دیا، حضرت نے فرمایا
بیٹھ جاؤ تمہیں ان کی معرفت اور پہچان نہیں ہے، اس سے
معلوم ہوا کہ انسان کے جانچنے اور پرکھنے کی ایک کسوٹی سفر بھی
ہے۔ اس لئے کہ سفر میں انسان کے اصل اخلاق نمایاں ہوجاتے ہیں
اور تجربہ سے بسا اوقات بہت سے لوگ اس سے مختلف ظاہر ہوتے ہیں جو اپنے مستقر
اور جائے قیام پر نظر آتے ہیں۔ اس معیار بھی حضرت
مہتمم صاحب کو بلند اخلاق ہی پایا گیا، خود بندہ کو حضرت مہتمم
صاحب کے ساتھ دسیوں مرتبہ مختصر اور طویل سفر کا اتفاق ہوا ان سفروں میں
ہم نے اچھی طرح محسوس کیا کہ ان کے حضر و سفر کے سلوک اور برتاؤ میں
کوئی فرق نہیں ہے، بلکہ وہ سفر میں حضر کی بہ نسبت زیادہ
شفیق ومہربان اور منبسط نظر آئے۔
اپنے خردوں کے
ساتھ نہایت شفقت اور نوازش کا معاملہ فرماتے تھے، اس بارہ میں وہ وَاخْفِضْ جَنَاحَکَ لِمَنْ اتَّبَعَکَ مِنَ الموٴمنین پر کاربند تھے۔ اسی طرح ’’انزلوا الناس علی منازلھم‘‘ پرجس طرح انھیں کاربند پایا ان کے معاصر بزرگوں میں سے
کسی اور کو اس اہتمام کے ساتھ اس کی رعایت کرتے نہیں دیکھا،
اسی کا نتیجہ تھا کہ دارالعلوم دیوبند میں ہر بڑا چھوٹا
اپنے طورپر یہی سمجھتا تھا کہ حضرت مہتمم صاحب دوسروں کے بالمقابل اس
پر زیادہ مہربان ہیں۔
حضرت والا ایک
انسان تھے اور انسان سے غلطیاں ہوتی ہیں، بلاشبہ ان سے بھی
تقصیرات کا صدور ہوا ہوگا، رائے اور فیصلے میں غلطیاں بھی
ہوئی ہوں گی، لیکن قاعدہ یہ ہے کہ ’’اذا غلبت محاسن الرجل علی المساوی لم تذکر المساوی‘‘ جب آدمی کی خوبیاں، اس کی خرابیوں
پر غالب ہوں تو اس کی خرابیاں بھلادی جاتی ہیں، اور
امام شعبی کا بیان ہے کہ اہل عرب کہا کرتے ہیں کہ جس شخص کی
اچھائیاں اس کی برائیوں پر غالب ہوں وہ مرد کامل ہے اوراس میں
دور ائے نہیں ہوسکتی کہ حضرت مہتمم صاحب کے محاسن وفضائل ہی
غالب تھے اس لئے بلاشبہ وہ ایک مرد کامل اور بڑے انسان تھے۔
کیا شخص تھا جو راہ وفا
سے گزر گیا
جی چاہتا ہے نقش قدم
چومتے چلیں
خدا ان کی بال بال مغفرت فرمائے اور اپنی
رحمتوں سے نوازے۔ آمین
-------------------
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 1-2 ،
جلد: 95 ، صفر، ربیع الاول 1432 ہجری مطابق جنوری، فروری 2011ء